موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں 50 فیصد سے زیادہ انسانی امراض کی شدت بدترین ہوسکتی ہے۔
یہ انتباہ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔
جرنل نیچر کلائمٹ چینج میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ امراض جیسے ملیریا، ڈینگی، زیکا اور کووڈ 19 کی شدت میں موسمیاتی اثر جیسے ہیٹ ویوز، جنگلات میں آتشزدگی، بہت زیادہ بارش اور سیلاب کے باعث اضافہ ہوجاتا ہے۔
تحقیق میں مزید کہا گیا کہ یہ موسمیاتی اثرات ان امراض کے پھیلاؤ کو بھی بڑھا دیتے ہیں اور ان خطرات سے نمٹنا معاشرے کے لیے بہت مشکل ہے۔
عالمی درجہ حرارت میں اضافے اور بارشوں میں آنے والی تبدیلی سے مچھروں یا دیگر کیڑوں سے پھیلنے والے امراض کا دائرہ بھی پھیل رہا ہے۔
تحقیق کے مطابق سیلاب کے باعث لوگ بے گھر ہوکر جراثیموں کے لیے آسان ہدف بن جاتے ہیں اور ان میں ہیضے کی وبا آسانی سے پھیل جاتی ہے۔
اسی طرح موسمیاتی اثرات سے مخصوص جراثیموں کے خلاف انسانی مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے، جس سے وہ ٹائیفائیڈ بخار اور دیگر امراض کا آسان شکار بن جاتے ہیں۔
محققین نے کہا کہ ہم نے امراض کا پنڈورا باکس کھول دیا گیا، موسمیاتی تبدیلیوں کو ہم نے پوری دنیا میں متحرک کردیا ہے اور امراض کو پھیلنے کا موقع مل گیا ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کسی شیر کو لکڑی سے چھیڑ دیں اور وہ پلٹ کر ہم پر حملہ کردے۔
اس تحقیق کے دوران مختلف موسمیاتی اثرات اور وبائی امراض کے درمیان تعلق پر ہونے والی 70 ہزار سے زیادہ تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔
محققین نے کہا کہ ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ تحقیقی رپورٹس میں کس طرح پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ زہریلی گیسوں کے اخراج جاری رہنے پر ہم پر کیسے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ممکنہ طور پر موسمیاتی بحران کے باعث کووڈ کے پھیلاؤ بہت زیادہ ہوا جیسے آتشزدگی اور سیلاب کے باعث چمگادڑوں نے انسانوں کے قریب رہنا شروع کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اس معاملے کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جارہا۔