ناشتہ دن کے تمام کھانوں میں سب سے اہم ہوتا ہے، اکثر بچے اور نوعمر اسے نظر انداز کردیتے ہیں جس کا نتیجہ ان کی دماغ اور جسمانی صلاحیتوں میں کمی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ مسئلہ عام ہے اور صرف امریکا میں ہی 20 فیصد بچے ناشتے کے بغیر گھر چھوڑ دیتے ہیں اور اسکول جاکر کچھ نہ کچھ کھاتے ہیں۔ ان میں غریب اور نچلے درجے کے متوسط طبقے کے بچے زیادہ ملوث ہیں جو معاشی مشکلات کے بھی شکار ہیں۔
امریکی اکادمی برائے اطفال (اے اے پی) کے مطابق اگر بچے اور نوعمر (ٹین ایجر) صبح بہتر ناشتہ کرتے ہیں تو اس سے جسمانی وزن، غذائیت، یادداشت، تعلیمی صلاحیت اور توجہ سمیت کئی معاملات بہتر ہوتے ہیں۔ کیونکہ بہتر ناشتے کے اثرات پورے دن برقرار رہتے ہیں۔ ناغہ کی صورت میں یہ تمام فوائد حاصل نہیں کیے جاسکتے۔
اب اسپین میں کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گھر پر ناشتہ کرنا خود سماجی اور نفسیاتی (سائیکوسوشل) طور پر بھی مفید ہے۔ یہ تحقیق فرنٹیئرز ان نیوٹریشن میں شائع ہوئی ہے۔ یہاں سائیکو سوشل سے مراد جذباتی، سماجی، معاشرتی اور جسمانی بہتری ہے جس میں بچے کی نفسیات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
مطالعے میں پورے اسپین سے 3772 بچے شامل کیے گئے ہیں جن میں ٹین ایجر بھی تھے اور پانچ درجوں (اسکیل) پرمشتمل مشکل سوال نامے بھروائے گئے تھے۔ اس میں ناشتے کی عادات، ناشتے میں شامل اشیا، مقام (گھر یا اسکول) اور سماجی نفسیات سے جڑے سوالات بھی تھے۔
اس میں کل تین طرح کے بچے سامنے آئے، اول جو گھر سے ناشتہ کرتے تھے، دوم جو اسکول جاکر کا بریک میں کچھ نہ کچھ کھاتے تھے اور سوم جو دونوں جگہوں پر کچھ بھی نہیں کھایا کرتے تھے۔
جن بچوں نے گھر میں ناشتہ نہیں کیا ان میں سماجی نفسیاتی مسائل دیکھے گئے۔ اسی طرح کمرہ جماعت میں بھی ان کی کارکردگی ناشتہ کرنے والے بچوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم تھی۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ بچوں کے لیے ناشتہ نہایت اہم ہے جسے کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔